ہم سب دھرتی ماں کے بچے ہیں

0
1466

ڈاکٹر سید عظیم کا ڈاکٹر خالد سہیل سے انٹرویو

نوٹ :ڈاکٹر سید عظیم نے ’جو آج کل LUMS یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پرفیسر ہیں‘ چند سال پیشتر اپنے کینیڈا کے قیام کے دوران ڈاکٹر خالد سہیل سے مندرجہ ذیل انٹرویو لیا تھا۔

عظیم: آپ نے پاکستان کب چھوڑا ’کینیڈا کب تشریف لائے اور ٹورانٹو میں کب سے ہیں؟

سہیل: میں 1976 میں خیبر میڈیکل کالج پشاور سے ایم بی بی ایس کر کے ایران چلا گیا تھا۔ میں ایران میں ایک سال رہا اور ہمدان میں بو علی سینا کے مزار کے سامنے بچوں کے ایک کلینک میں ڈاکٹر کے طور پر کام کرتا رہا۔ مجھے نفسیات میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا بہت شوق تھا۔ چنانچہ 1977 میں کینیڈا کی میموریل یونیورسٹی میں نفسیات کی تعلیم حاصل کرنے آ گیا۔ 1982 میں میں نے سائیکاٹری میں فیلوشپ حاصل کی۔ مختلف نفسیاتی ہسپتالوں میں کام کرنے کے بعد میں نے 1995 میں ٹوارانٹو کے مشرق میں اپنا ایک کلینک بنایا ہے جس کا نام CREATIVE PSYCHOTHERAPY CLINIC ہے جس میں اب میں نفسیاتی مریضوں کا علاج کرتا ہوں۔

عظیم: آپ نے اب تک اردو اور انگریزی میں بیس سے زیادہ کتابیں تخلیق کی ہیں۔ آپ اتنا زیادہ کس طرح لکھ لیتے ہیں؟

سہیل: اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔ ایک وجہ یہ ہے کہ میرے کاندھوں پر خاندانی ذمہ داریوں کا بوجھ نہیں ہے۔ اکثر شاعر و ادیب اپنی خاندانی مصروفیات کی وجہ سے ادب کو پوری توجہ نہیں دے پاتے۔ میں اس لحاظ سے خوش قسمت ہوں۔

دوسری وجہ یہ میں کہ میں نے اپنی MUSE سے دوستی کر لی ہے جو میرے لیے متواتر تخلیقی تحفے لاتی رہتی ہے۔ مجھے کئی سال پہلے اندازہ ہو گیا تھا کہ میں صبح کے وقت زیادہ CREATIVE محسوس کرتا ہوں اس لیے اب میں ہفتے ’اتوار‘ پیر اور منگل کی صبح تخلیقی کام کرتا ہوں۔ ایک وہ زمانہ تھا جب میرے من میں تخلیقی بارش ہوتی تھی اور چند ہفتوں کے بعد ایک نظم ’غزل یا افسانہ تخلیق ہوتا تھا، اب وہ بارش ایک تخلیقی چشمہ بن گئی ہے جو میرے من میں بہتا رہتا ہے اور میں مختلف موضوعات پر مختلف اصناف میں لکھتا رہتا ہوں۔

عظیم : کیا آپ ادب کے سیاسی اور فلسفیانہ نقطہِ نظر کے قائل ہیں یا اس کو محض حظ اٹھانے کا ایک ذریعہ سمجھتے ہیں؟

سہیل: میرا خیال ہے ؎ فکِر ہر کس بقدرِ ہمتِ اوست

بعض ادیب قارئین کو محظوظ اور ENTERTAIN کرنا چاہتے ہیں اس لیے وہ تفریحی ادب تخلیق کرتے ہیں، بعض ادیب سنجیدہ ادب تخلیق کر کے قارئین کو ENLIGHTEN کرنا چاہتے ہیں۔ وہ انہیں اپنی زندگی کی بصیرتوں میں شریک کرنا چاہتے ہیں۔ میرا پسندیدہ ادب WISDOM LITERATURE ہے جو معاشرے میں دانائی پھیلاتا ہے اس کی مثالیں دیومالائی ادب ’لوک ورثہ اور صوفیانہ شاعری ہیں۔ یہ وہ مقام ہے جہاں ؎ شاعری جز ایست از پیغمبری۔ بن جاتی ہے۔ میرے نزدیک ہر شاعر اور ادیب کو اپنے سچ کے تخلیقی اظہار کی کوشش کرنی چاہیے۔ اگر ادیب قدآور ہے تو اس کا انفرادی سچ اجتماعی سچ کا بھی اظہار کرتا ہے اور اس کا تخلیق کردہ ادب اس دور کا نمائندہ ادب سمجھا جاتا ہے۔

عظیم: آپ کا تخلیقی اظہار باقی شاعروں اور ادیبوں سے کیسے مختلف ہے؟

سہیل: ویسے تو ہر فنکار کا تخلیقی تجربہ مختلف اور منفرد ہوتا ہے لیکن میرا مشاہدہ یہ ہے کہ اکثر شاعروں اور ادیبوں کے لیے صنف کی اہمیت بنیادی اور موضوعات کی اہمیت ثانوی ہوتی ہے۔ وہ غزل ’نظم‘ افسانے یا ناول کو اپنے تخلیقی اظہار کے لیے چنتے ہیں اور پھر اسی صنف میں اپنا تخلیقی اظہار کرتے ہیں۔ میرے لیے موضوعات بنیادی حیثیت رکھتے ہیں اور صنف ثانوی۔ میں چونکہ غزل ’نظم‘ افسانہ اور مقالہ سب اصناف میں اپنا تخلیقی اظہار کرتا ہوں اس لیے میں ایک موضوع چنتا ہوں اور پھر اس موضوع پر مختلف اصناف کی تخلیقات جمع کرتا ہوں۔

اس طرح میں اپنے تجربے ’مشاہدے‘ مطالعے اور تجزیے کو یکجا کر سکتا ہوں۔ اگر آپ میری کتابوں کو دیکھیں تو وہ آپ کو مختلف موضوعات پر ملیں گی۔ ایک عورتوں کے مسائل کے بارے میں تو ایک کالوں کے مسائل کے بارے میں ’ایک مہاجروں کے نفسیاتی مسائل کے بارے میں ہے تو ایک امن کے بارے میں۔ میں نے عالمی ادب کے تراجم بھی کیے ہیں۔ میں ادب کو انفرادی سچ کے تخلیقی اظہار کے ساتھ ساتھ سماجی شعور کی پرورش کرنے کا بھی ذمہ دار سمجھتا ہوں۔

عظیم: آپ ایک ماہرِ نفسیات بھی ہیں اور ایک شاعر اور ادیب بھی، آپ کا انسان کے بارے میں کیا فلسفہ ہے؟

سہیل: میرا فلسفہ انسان دوستی ہے۔ میں انسان کی عزت اور عظمت کا قائل ہوں۔ میری نگاہ میں انسانی بچہ ایک بیج کی طرح ہوتا ہے جس میں اس کی عظمت کے سب امکانات موجود ہوتے ہیں۔ وہ ایک تن آور درخت بن سکتا ہے اور اپنے معاشرے کو اپنے میٹھے پھلوں کے تحفے دے سکتا ہے لیکن تن آور درخت بننے کے لیے جس طرح کسی بیج کو تازہ ہوا اور سورج کی روشنی کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح انسانی بچے کو ماں باپ کی محبت اور اساتذہ کی رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔

اگر یہ چیزیں اسے مل جائیں تو وہ ایک پیار اور محبت کرنے والا امن پسند انسان بن جاتا ہے اور اپنی صلاحیتوں کو پروان چڑھا کر ایک کامیاب ادیب ’شاعر‘ سائنسدان ’وکیل یا سیاسی کارکن بن سکتا ہے اور اپنی خاندانی اور معاشرتی ذمہ داریوں سے عہدہ بر آ ہو سکتا ہے لیکن اگر وہ اپنے حقوق و مراعات سے محروم رہے اور اس کا استحصال ہوتا رہے تو وہ ایک شدت پسند اور تشدد پسند انسان بھی بن سکتا ہے۔

ہرقوم کے دانشور چاہے وہ شاعر ہوں یا ادیب ’سائنسدان ہوں یا صوفی‘ ایک بہتر معاشرے کا خواب دیکھتے ہیں تا کہ ہم سب بہتر انسان بن کر ایک پرامن معاشرہ قائم کر سکیں۔ یہ اختصار سے میرا انسان دوستی کا فسلفہ ہے۔

عظیم: آپ کی مہاجر ادیبوں کے بارے میں کیا رائے ہے؟

سہیل: ایک مہاجر ادیب جب ایک معاشرے سے دوسرے معاشرے میں ہجرت کرتا ہے تو اسے اپنی زبان ’ادب اور معاشرے کو ایک اور زبان‘ ادب اور معاشرے کے پس منظر میں دیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ بعض دفعہ دو معاشروں میں زندگی گزارنے سے مہاجر ادیب کی اندر کی تیسری آنکھ کھل جاتی ہے اور اگر ایسا ہو جائے تو وہ ایسا ادب تخلیق کر سکتا ہے جو عالمی ادب کا استعارہ بن جاتا ہے۔ بہت سے ممالک کے مہاجر ادیبوں نے بیسویں صدی میں ادبِ عالیہ تخلیق کیا ہے۔ میں نے کئی عالمی ادیبوں کے اردو میں تراجم کیے ہیں۔

عظیم: کیا آپ اپنے آپ کو ایک سوشلست سمجھتے ہیں؟

سہیل: میں نے اپنی زندگی میں تین نظریات سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ جمہوریت ’سوشلزم اور انسان دوستی۔ میں نے امریکہ کی بجائے کینیڈا میں زندگی گزارنے کو اس وجہ سے ترجیع دی ہے کہ کینیڈا ایک حوالے سے سوشلسٹ ملک ہے۔ یہاں صحت اور تعلیم کی بہت سی سہولیات ہیں۔ میرے مریضوں کو میرے کلینک میں میری فیس نہیں دینی پڑتی۔ ان کی فیس حکومتِ وقت ادا کرتی ہے۔

عظیم: آپ کی امن کے بارے میں کیا رائے ہے؟

سہیل: میری نگاہ میں داخلی امن اور خارجی امن ’نفسیاتی امن اور معاشرتی امن میں گہرا تعلق ہے۔ ایک ایسا شخص یا رہنما جس کے دل میں غصہ‘ نفرت اور تلخی ہو وہ معاشرے میں کیسے امن لا سکتا ہے۔ ہمیں معاشرے کے تضادات کو ختم کرنے سے پہلے اپنی داخلی تضادات کو حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ میں جنگ کو نفسیاتی طور پر ایک معاشرے کے اجتماعی تشدد کا اظہار سمجھتا ہوں۔ جہاں تک معاشرتی امن کا تعلق ہے میرا موقف ہے کہ

PEACE IS MORE THAN ABSENCE OF WAR

جیسے صحت صرف بیماری کے فقدان کا نام نہیں بلکہ ایک مثبت طرزِزندگی کا نام ہے اسی طرح امن صرف جنگ کے نہ ہونے کا نام نہیں۔ سرد جنگ بھی جنگ ہی ہوتی ہے۔ امن اس وقت آتا ہے جب فریقین میں دوستانہ اور مل جل کر رہنے کے جذبات موجود ہوں اور وہ اپنے تضادات نفرت اور تلخی کی بجائے دوستی اور آشتی سے حل کرنے کی کوشش کریں۔ جہاں تک عالمی امن کا تعلق ہے میرا خیال ہے کہ اس کا تعلق انصاف سے ہے

THERE CAN BE NO LASTING PEACE WITHOUT JUSTICE

جب تک دنیا کے غریب عوام اور پسماندہ اقوام کو ان کے حقوق نہیں ملیں گے ’عالمی عدالتوں میں ان کے ساتھ انصاف نہیں ہوگا اور ان کا اقتصادی‘ سماجی اور سیاسی استحصال ہوتا رہے گا دنیا میں پائدار امن قائم نہیں ہوگا۔

عالمی امن کے لیے ایک ایسی اقوامِ متحدہ کی ضرورت ہے جس میں پانچ بڑی طاقتوں کو ویٹو پاور حاصل نہ ہو اور دنیا کی تمام ریاستوں کو برابر کے حقوق حاصل ہوں۔ وہ اقوامِ متحدہ تمام اقوامِ عالم پر دباؤ ڈالے کہ وہ اپنی افواج اور ایٹمی ہتھیار ختم کر دیں۔ فوج کی صرف اقوامِ متحدہ کو اجازت ہو جو امن کی فوج کہلائے۔ جب تک عالمی اقتصادیات کی عمارت فوج کی معاشیات اور WAR ECONOMY کی بنیادوں پر قائم ہوگی عالمی امن کے امکانات بہت کم ہیں۔

عظیم : آپ کا انسانیت کے مستقبل کے بارے میں کیا خیال ہے؟

سہیل: میری نگاہ میں انسانیت اکیسویں صدی میں ایک دوراہے پر کھڑی ہے۔ ایٹمی ہتھیاروں کے بعد انسانی تاریخ میں پہلی بار یہ ممکن ہوا ہے کہ ہم اجتماعی خودکشی کے مرتکب ہوسکتے ہیں۔ اب ہم یا تو پوری انسانیت کو نیست و نابو کر دیں گے اور یا ارتقا کی اگلی منزل پہ پہنچیں گے جہاں ہم مل جل کر رہنا سیکھیں گے اور یہ جانیں گے کہ سب انسان چاہے وہ کسی رنگ ’نسل‘ زبان یا مذہب سے تعلق رکھتے ہوں ہمارے بہن بھائی ہیں کیونکہ وہ سب دھرتی ماں کے بچے ہیں اور ہم سب کو مل کو امن و آشتی سے رہنا ہے۔

اگر ہم اپنے بچوں میں نفرت اور تعصب کی بجائے محبت ’آشتی اور اخوت کے جذبے پیدا کر سکیں گے تو سرخرو ہوں گے۔ ہمیں اگلی نسلوں میں امن کا شعور پیدا کرنا ہوگا تا کہ وہ اپنی ذات سے‘ دوسرے انسانوں سے اور فطرت سے امن کے ساتھ رہ سکیں۔ یہی میرا خواب ہے اور یہی میری خواہش ہے کہ ہم سب مل کر اس خواب کو شرمندہِ ٹعبیر کریں۔ میرا ایک شعر ہے

؎ تمام شہر سے ملتی ہوں جس کی دیواریں

ہم اپنے شہر میں ایسا مکاں تلاش کریں

عظیم: انٹرویو کے آخر میں اپنی کوئی نظم سنائیں

سہیل: اسرائیل کے سفر سے لوٹتے ہوئے میں ہوائی جہاز میں ایک نظم لکھی تھی۔ اس نظم کا عنوان کے

اسرائیل

؎نفرت بھی عجب اور محبت بھی عجب تھی

اس شہر میں قربت کی روایت بھی عجب تھی

دیواریں تھیں ہمراز مگر دل میں خلیجیں

ہمسایوں کی آپس میں رقابت بھی عجب تھی

اک باپ کی اولاد مگر خون کے پیاسے

دشمن تھے مگر ان میں شباہت بھی عجب تھی

خاموشی کا ہر لمحہ وہاں چیخ رہا تھا

آوازوں کی بستی میں بغاوت بھی عجب تھی

معصوم جبینوں پہ ملے خون کے چھینٹے

اور اس پہ ستم خون کی رنگت بھی عجب تھی

جو شخص ملا کانچ کا پیکر لگا مجھ کو

اور کانچ کی پتھر سے رفاقت بھی عجب تھی

ہر نسل نئی نسل کو دیتی رہی ہتھیار

اس شہر میں خالدؔ یہ وراثت بھی عجب تھی

۔ ۔

جواب چھوڑ دیں

Please enter your comment!
Please enter your name here