کیا آپ بھی جہاد کے خلاف ہیں؟

0
1654

فرزانہ حسن کینیڈا کی ایک متنازعہ فیہ دانشور ہیں اور ان کی تازہ ترین کتاب THE CASE AGAINST JIHAD ان کی شہرت کے لیے جلتی پہ تیل کا کام کر سکتی ہے۔ فیملی آف دی ہارٹ نے اس کتاب پر ایک سیمینار کا اہتمام کیا جس میں کتاب کے حق میں اور اس کے خلاف مضامین پڑھے گئے۔ کچھ نے تنقید کے نشتر چلائے اور کچھ نے تحسین کے پھول پھینکے۔ میں نے اس سیمینار میں جو مضمون پڑھا تھا میں اس کالم میں اس مضمون کا خلاصہ آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں۔
جب ہم مسلمانوں میں جہاد کے تصور کا تجزیہ کرتے ہیں تو ہمیں احساس ہوتا ہے کہ مختلف لوگوں اور مختلف مسالک کے اس کے بارے میں خیالات بہت مختلف ہیں۔
بعض مسلمان اپنے نفس کے خلاف جہاد کو جہادِ اکبر سمجھتے ہیں۔
بعض مسلمان صرف قلم کے جہاد پر ایمان رکھتے ہیں
اور
بعض مسلمانوں کے لیے جہاد ایک ایسی مقدس جنگ ہے جو وہ غیر مسلموں کے ساتھ لڑنے کے لیے ہمیشہ تیار رہتے ہیں تا کہ ساری دنیا میں اسلام کا بول بالا ہو۔
فرزانہ حسن اپنی کتاب میں ان مسلمانوں کو چیلنج کرتی ہیں جو اسلام کو ایک امن پسند مذہب سمجھتے ہیں اور ان مسلمانوں پر اپنی توجہ مرکوز کرتی ہیں جو خدا‘ اسلام اور قرآن کے نام پر خون بہانے کے حق میں ہیں اور اسے اپنے ایمان کا حصہ سمجھتے ہیں۔

فرزانہ حسن کا موقف ہے کہ جہادی مسلمان ساری دنیا کے امن کے لیے ایک خطرہ بن گئے ہیں۔ وہ مسلمانوں کی تاریخ میں ابن تیمیہ‘ ابوالاعٰلیٰ مودودی اور سید قطب کی کتابوں اور القاعدہ‘ اخوان المسلمین اور داعش جیسی مذہبی اور سیاسی تحریکوں پر سخت تنقید کرتی ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ مسلمان اپنے جہاد کے فلسفے اور روایت پر نطرِ ثانی کریں‘ شدت پسندی اور دہشت گردی کو الوداع کہہ کر امن اور آشتی کو گلے لگائیں۔ ان کی نگاہ میں جہادی مسلمان ساری دنیا کو مسلمان کرنے کا تہیہ کیے ہوئے ہیں۔
فرزانہ حسن کی کتاب پڑھتے ہوئے مجھے اپنی وہ تحقیق یاد آ گئی جو میں نے اسی موضوع پر اپنی دو کتابوں
FROM HOLY WAR TO GLOBAL PEACE اور
PROPHETS OF VIOLENCE AND PEACE لکھنے کے لیے کی تھی۔ اس تحقیق کے دوران میں نے ان لوگوں کا نفسیاتی تجزیہ کیا تھا جو مذہبی اور سیاسی جنگوں میں شریک ہوتے ہیں۔
میری نگاہ میں بیسویں صدی میں تین ایسے نظریے اور عقیدے موجود
تھے جنہوں نے دہشت‘ وحشت‘ جارہیت اور تشدد کا دفاع کیا تھا اور ہزاروں لاکھوں انسانوں کا خون بہایا تھا۔
پہلا نظریہ نیشنلزم کا تھا۔ نجانے کتنے ملکوں نے ملکی سالمیت کے نام پر فوجیں بنائیں اور سینکڑوں‘ ہزاروں‘ لاکھوں معصوم انسانوں کا خون بہایا۔
دوسرا نظریہ اقتصادی تھا۔ چاہے وہ کمیونزم ہو یا کیپیٹلزم۔۔۔ امریکہ نے کیپیٹلزم کے نام پر لاطینی امریکہ میں اور روس اور چین نے کمیونزم کے نام پر ساری دنیا میں لاکھوں معصوم مردوں‘ عورتوں اور بچوں کا خون بہایا۔
تیسرا نظریہ مذہب تھا۔ نجانے کتنے ملکوں نے یہودیت‘ عیسائیت‘ اسلام اور ہندوازم کے نام پر معصوم انسانوں کے خون کے دریا بہائے۔
جب ہم خود کش بمباروں کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ دنیا میں جہاں مسلمانوں نے خود کش بمبار تیار کیے وہیں تامل ٹائگرز نے سیکولر نیشلزم کے نام پر بھی خود کش حملے کیے۔
فرزانہ حسن اپنی کتاب میں صرف مسلمانوں اور وہ بھی جہادی مسلمانوں پر اپنی توجہ مرکوز کرتی ہیں۔ وہ نہ تو عیسائی‘ یہودی اور ہندو دہشت گردوں کی بات کرتی ہیں اور نہ ہی غیر مسلم خود کش حملہ آوروں کا ذکر کرتی ہیں۔
میں ایک امن پسند انسان ہوں۔ میری نگاہ میں ہر انسان کی زندگی محترم‘ مقدس اور معتبر ہے چاہے اس کا کسی رنگ‘ نسل‘ زبان یا مذہب سے تعلق ہو۔ میں ہر اس ریاست‘ عقیدے اور نظریے کے خلاف ہوں جو انسانوں کی زندگی کا احترام نہیں کرتا۔
فرزانہ حسن نے اس حقیقت پر روشنی نہیں ڈالی کہ ساری دنیا میں پچاس سے زیادہ مسلم ممالک میں سے چند ہی ایسے کیوں ہیں جنہوں نے خود کش بمبار تیار کیے۔ ایک امریکی ماہرِ سماجیات ROBERT PAPE نے پچھلے تیس سالوں کے خود کش حملہ آوروں پر تحقیق کرکے ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام ہے DYING TO WIN ، وہ اس کتاب میں اپنی تحقیق سے ثابت کرتے ہیں کہ عراق اور افغانستان کی طرح صرف ان مسلم ممالک میں خود کش بمبار پیدا ہوئے جن میں امریکہ اور انگلینڈ نے یا حملہ کیا یا اپنی فوجیں بھیجیں۔
فرزانہ حسن اپنی کتاب میں تصویر کا صرف ایک رخ دکھاتی ہیں۔ کوئی بھی جنگ جہاں بھی ہو اس میں کم از کم دو فریق شامل ہوتے ہیں۔ جہاں فرزانہ حسن مسلمانوں کو اپنے رویے اور نظریے پر نظرِ ثانی کی دعوت دیتی ہیں وہیں نوئم چومسکی امریکیوں کو اپنی خارجہ پولیسی پر نطرِ ثانی کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔ ان کی نگاہ میں امریکہ ساری دنیا کے امن کے لیے جہادی مسلمانوں سے کہیں زیادہ خطرہ ہے۔
ایک انسان دوست ہونے کے ناطے میں مسلمان جہادیوں کے بھی اتنا ہی خلاف ہوں جتنا ان امریکی فوجیوں کے خلاف جو مسلمان ممالک میں جا کر معصوموں کا خون بہاتے ہیں۔ میری نگاہ میں اسلامی شدت پسندی اور امریکی استعماریت دونوں ہی انسانی زندگی اور عالمی امن کے لیے خطرہ ہیں۔
میری نگاہ میں فرزانہ حسن کی کتاب مسلمانوں اور غیر مسلموں ‘دہشت گردوں اور امن پسندوں دونوں کے لیے ایک تاریخی‘ مذہبی اور سیاسی آئینہ ہے۔
فرزانہ حسن سے نظریاتی اختلاف کے باوجود میں انہیں THE CASE AGAINST JIHAD کتاب رقم کرنے پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

جواب چھوڑ دیں

Please enter your comment!
Please enter your name here